صالح کی پہچان

حضرت شقیق بن ابراہیم الزاہد رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے دریافت کیا کہ’’ لوگ مجھے نیک کہتے ہیں۔ میں کیسے سمجھوں کہ میں نیک ہوں یا بد ؟‘‘ فرمایا ’’تین باتوں سے:
اول:اپنے باطن کاحال بزرگوں سے بیان کر۔اگر وہ اس کو پسند کریں تو نیک ہے ورنہ بد۔
دوم :اپنے دل پردنیا پیش کر۔ اگر وہ اس کو رد کردے تو، تو نیک ہے ورنہ نہیں۔
سوم : خود پر موت کو پیش کر۔ اگر دل اس سے راضی اور خوش ہو تو سمجھ لے کہ تو نیک ہے ورنہ نہیں‘‘۔
اگر کسی کو یہ تینوںباتیں حاصل ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ کاشکر کرے اور اپنی عاجزی کااظہار کرے۔ کہیں اس کے عمل میںریا نہ پیداہوجائے، جو سارے کئے کرائے پرپانی پھیر دے۔

تین اہم باتیں

جو آخرت کے لئے عمل کرے گا، اللہ تعالیٰ گ اس کے دنیا کے کاموں کو درست فرمادے گا۔ 1
جو اپنے اور اللہ گکے درمیان معاملہ درست کرلے گا ( یعنی اللہ گ سے اس کا معاملہ اخلاص کاہو گا ) تو اللہ گ اس کے اور لوگوں کے درمیان معاملات کو درست فرمادے گا۔ 2
جواپنے باطن کو ٹھیک کرلے گاتو اللہ گ اس کے ظاہر کو ٹھیک کردے گا۔ 3

تین چیزیں ہلاکت کاسبب ہیں

جب اللہ کسی بندہ کو (اس کے کسی برے عمل کے سبب) ہلاک کرناچاہتا ہے تو اس کو تین چیزوں میں مبتلا کردیتا ہے۔

 اس کو علم دیتا ہے لیکن عمل کی توفیق سلب کرلیتا ہے۔ 1
صالحین کی صحبت کاموقع دیاجاتا ہے لیکن ان کے مرتبہ کی معرفت اوراس کی قدر دل سے نکال لی جاتی ہے۔ 2
نیک کام کرنے کاموقع دیاجاتا ہے لیکن اخلاص سے محروم کردیاجاتا ہے۔ 3

یہ اس کی نیت کی خرابی اور خبث باطن کی وجہ سے ہوتا ہے ورنہ اگر نیت درست ہو تو علم کانفع، عمل میںاخلاص اور بزرگوں کی قدرضرور ہو گی۔
 

ریاکار کے چار نام

کسی نے عرض کیا’’یا رسول اللہ ﷺ !قیامت میں نجات کس کام کی وجہ سے ہو گی؟‘‘ فرمایا: ’’اللہ گ کے ساتھ دھوکہ نہ کرو‘‘۔ عرض کیا’’ اللہ گ کے ساتھ دھوکہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘ فرمایا ’’اللہ گ کے حکم پر صرف اللہ گکے لئے عمل کرو ،غیر اللہ کے لئے نہیں‘‘۔

اللہ گکے علاوہ کسی اور کے لئے عمل کرنا ہی اللہ گکے ساتھ دھوکہ کرنا ہے۔ ریا سے بچو کیونکہ ریا شرک ہے۔ ریا کار قیامت میں چار ناموں سے پکارا جائے گا۔ ’’یاکافر، یافاجر، یاغادر ( دھوکہ باز)، یا خاسر‘‘۔ تیراعمل ضائع ہو گیا، تیرا اجر باطل ہو گیا، آج تیرا کوئی حصہ نہیں۔ اور دھوکہ باز اپنے عمل کابدلہ اسی سے لے، جس کے لئے تو نے عمل کیا تھا۔ اس حدیث کے راوی ( صحابی ) نے اللہ کی قسم کھا کر کہا یہ بات میں نے رسول اللہگ سے سنی ہے۔ کسی نے کیاخواب کہا ہے:
’’نیکی کرنے سے، اس کی حفاظت زیادہ سخت ہے ‘‘
 

نیک عمل کی مثال

ابوبکر واسطی ؒفرماتے ہیں ’’نیک عمل کی مثال شیشہ کی سی ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی سے شیشہ ٹوٹ جاتا ہے اور پھر درست نہیں ہوتا‘‘۔

اسی طرح نیک عمل ریا اور عُجب (خود پسندی) سے برباد ہو جاتا ہے۔ پھرباعثِ اجر نہیں رہتا۔
تنبیہ : عمل میں ریاکاری کاخطرہ ہو تو انتہائی کوشش کرکے اس کو دور کرے لیکن کوشش کے باوجود اگر دورنہ ہو تو اس کی وجہ سے عمل کو ترک نہ کرے بلکہ استغفار کرتا رہے۔ شاید اللہ گ دوسرے عمل میں اخلاص عطا فرمادے۔

 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: