حروف تہجی

ہر نام، اسم اور عبارت کے عدد اس جدول کے مطابق لینے ہیں۔

مثلاً اللہ کے عدد ( ا ، ل ، ل ، ہ ) کے ۶۶ ہوئے۔ یہ اعداد جمیل کبیر کہلاتے ہیں۔ علم اعداد جمیع علوم مخفیہ میں مشکل اور افضل ہے۔ کیونکہ اسی سے ہی الواح و نقوش بنتے ہیں۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا: عِلْمُ الْاَعْدَادِ اَجَلَّ الْعُلُومِ۔ لہٰذا حروف کے وقف اعداد میں بعض حکمائے سلف نے کمال حاصل کیا تھا اور وہ تصرفاتِ عالم میں دخل رکھتے تھے۔ کوئی بھی علم مخفیہ بغیر علم اعداد کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ کسی حکیم کا قول ہے اِن عِلْمُ السّمْیَٓاء جُزْءٌ مِنْ اَعْدَاد الْوَقْفِ۔ یعنی تمام اسراری علوم، اعدادِ وقف کا جز ہیں۔ جب تک اسماء اور آیات کے اعداد نکالنے کےطریقہ کو نہ سمجھے گا، اعدادِ مقصود حاصل نہیں کر سکتا۔ اس میں بھی اکثر لوگ غلطیاں کرتے ہیں۔
 

اعداد نکالنے کا اُصول

ہمزہ کے اعداد اس کے استعمال کی بنا پر لیتے ہیں۔ بعض جگہ یہ الف کی آواز دیتا ہے۔ بعض جگہ ی کی بجائے ہوتا ہے۔ بعض جگہ اس کے عدد نہیں لیے جاتے۔ مثلاً عطاء اللہ میں ہمزہ بجائے الف کے ہے۔ ایک عدد لیں گے ئیل میں ہمزہ بجائے الف کے ( ایل ) ایک عدد لیں گے۔ نورالنساء میں ہمزہ ساکن ہے۔ کوئی عدد نہ ہو گا۔ رئوف میں ایک ہمزہ ایک واؤکی بجائے ہے یا پیش کی بجائے۔ کوئی عدد نہ ہو گا۔ رئیس میں ہمزہ یا ئے مکرر ہے۔ چونکہ کسرئہ ماقبل میں یا اشباع ہے اس لئے دوی کے عدد بیس لیں گے۔ لیکن رصیئیین اور بنیئین میں ی کے عدد دس لئے جائیں گے۔ ہمزہ کو خطِ منحنی کہتے ہیں۔ چونکہ ابجد میں اس کا حرف مقرر نہیں۔ اس لئے خود کوئی قیمت نہیں رکھتا۔ اعداد نکالنے کا قاعدہ یہ ہے کہ مکتوبی حروف کے اعداد لئے جاتے ہیں۔ بولنے میں جو آتے ہیں، ان کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ مثلاً عبدالرحمٰن میں الف لام بولنے میں نہیں آتا مگر لکھنے میں آتا ہے۔ اس لئے اس کے عدد لیں گے۔ آمنوا میں آخری الف زائد ہے۔ بولنے میں نہیں آتا مگر لکھنے میں آتا ہے۔ اس لئے اس کے عدد لیں گے۔ اس طرح الف وصل مکتوبی ہونے کی وجہ سے عدد لیا جائے گا۔ حالانکہ بولنے میں نہیں آتا۔ مثلاً واقتلو ھم کا الف۔

1

زیر زبر ، پیش ، مدات ، اور کھڑی زیر یا زبر کا کوئی عدد نہیں ہو تا۔ اللہ ایک لام مشّدد نہیں بلکہ دو لام لکھے جاتے ہیں۔ عدد ۶۶ ہوں گے۔

سمٰوٰت ، اسحٰق ، رحمٰن کے الف کے پڑھنے میں آتے ہیں مگر لکھنے میں نہیں آتے۔ ان کے عدد نہ لئے جائیں گے۔

الف مقصورہ کے دس عدد ہوں گے جیسے مرتضیٰ ، موسیٰ ، عیسیٰ مصطفٰیوغیرہ مثلاً مرتضیٰ کے عدد م ، ر ،ت ، ض ، ی کے ہوں گے۔
تائے طویل کے عدد ۴۰۰ ہوں گے۔ جیسے کائنات ، ذات ، صفات وغیرہ۔ یہ تا جمع کی ہے۔ مذکر ہے۔ تائے تانیت کو عموماً ہائے مدور ( ہ ) پر لکھا جاتا ہے۔ جیسے صلوٰۃ زکوٰۃ۔ اس کے صرف پانچ عدد لئے جائیں گے۔ اس لئے کہ یہ ہائے ہوز قائم مقام تاہے۔ شاعر لوگ ضرورت سن تاریخی کو مد نظر رکھ کر اس کے بھی ۴۰۰ عدد لے لیتے ہیں اور عملیات میں بھی ۴۰۰ عدد لئے جاتے ہیں۔ نون تنوین مکتوبی نہیں۔ اس لئے اعداد نہ لئے جائیں گے۔ وائو عاطفہ مثل دل و جان میں و کے عدد لئے جائیں گے۔ یائے معروف جس پر خط منحنی ہو، اس کے بیس عدد لئے جائیں گے۔ اس لئے کہ جب کسرئہ ماقبل اشباع پائے گا تو دوسری یے ہو جائے گی۔ حروف مشدّد ، چونکہ تحریر میں ایک ہی بار آتا ہے اس لئے دو مرتبہ محسوب نہ ہو گا۔ جیسے فرخ ، ف ، ر ، خ، کے عدد ۸۸۰ ہوں گے۔

نام کے اعداد نکالنا

عورت و مرد کے ناموں کے اعداد نکالتے وقت نام مع والدہ لیا جاتا ہے۔ خواہ کسی عمل میں لکھا ہوا ہو یا نہ ہو۔ والدہ کا نام تخصیص کے لئے ہوتا ہے۔ بعض لوگ حوّا کا نام شامل کرتے ہیں، یہ درست نہیں۔ نام معہ والد میں کمزوری رہ سکتی ہے اور شک کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ آیا در حقیقت یہ شخص باپ ہے بھی یا نہیں۔ اس امر کو قدرت بہتر جانتی ہے مگر کسی شخص کی والدہ کا حقیقی ہونا، ایک یقینی امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن باری تعالیٰ انسانوں کو ان کی مائوں کے ناموں سے پکارے گا۔ یوں سمجھ لیں کہ محمد حسین نام کے لوگ تو بہت ہوں مگر جب مع والدہ کا نام لیا محمد حسین بن امت الحفیظ۔ تو یہ نام کسی دوسرے کا نہ ہو گا۔ لہٰذا لوح یا عمل کے مؤکلات کے لئے یہ تخصیص نہایت ضروری ہے۔

1

عموماً پیدائشی نام لیا جاتا ہے۔اکثر صورتوں میں شبہ ہوتا ہے کہ پیدائشی نام کون سا ہے ؟ کیونکہ بعض لوگوں کے نام کئی کئی بار بدلے جاتے ہیں۔بعض اوقات نام کوئی رکھتے ہیں پکارتے کوئی ہیں اور برسوں یہی نام چلتا ہے۔لہٰذا نام کے لیے یہ یاد رکھیں کہ پیدائش کے بعد سے جو نام قائم رہا یا تبدیل ہو کر قائم رہا ،تحریر میں آیا سکول سرٹیفیکیٹ میں آیا، وہ گنا جائے گا۔

2

بعض لوگ نام مختصر کر لیتے ہیں۔ جن سے کاروباری امور سر انجام دیتے ہیں۔ اکثر لوگ بھی اسی نام سے پکارتے ہیں تو تعویذات میں یہ نام نہ چلے گا۔ کیونکہ یہ قائم مقام نام ہوتے ہیں۔ اصل نہیں ہوتے۔ بعض عورتوں کے سسرال میں نام بدل دیئے جاتے ہیں۔ ان کا پیدائشی نام لیناہو گا اور اگر نام نکاح کے وقت بدلا اور نکاح نامہ میں بھی آ گیا اور پھر یہ رائج ہو گیا تو یہ نیا نام بھی کام دے گا۔ افسران کے نام، جن کی والدہ کے نام نہ معلوم ہو، ان کا مروجہ پورا نام معہ عہدہ لیں تا کہ تخصیص ہو جائے۔ نام اور والدہ کا نام کے درمیان بن یا بنت کے عدد نہیں لئے جاتے۔ نقش کے اندر نام لکھنا ہو تو معہ والدہ ہو، جس میں بن یا بنت نہ لکھیں۔ مگر عزیمت جو نقش کے نیچے لکھی جاتی ہے ،اس میں بن یا بنت درمیان میں لکھا جائے گا۔
آدمی کا نام معہ والدہ ہو تو بن لکھتے ہیں۔ عورت کا نام معہ والدہ ہو تو درمیان میں بنت لکھتے ہیں۔
ذات ، لقب ، کنیت ، تخلص وغیرہ کے الفاظ مثلاً سید، شیخ ، آغا ، مرزا ، مولوی، میر وغیرہ نام کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ ذات پات اور خاندانی اثر کے تحت ہوتے ہیں۔ اس لئے ان تمام الفاظ کے عدد نام میں شامل نہ کرنے چاہئیں۔ البتہ کوئی افسر یا ایسا شخص ہو۔ جس کی ماں کا نام معلوم نہ ہو تو تخصیص کے لئے پورا نام اور شہرت کیلئے جو لفظ اس کامل سکے۔ وہ شامل کرسکتے ہیں تاکہ کچھ تو تخصیص ہو سکے۔
 

 

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: