ہر انسان کو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔ ہم سب لوگ اپنے آس پاس دیکھیں تو مختلف عمروں میں ہمیں کئی اموات ہوتی نظر آئیں گی۔ موت کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو، لیکن موت بہرحال آنی ضرور ہے۔
ہمارا یہ ایمان ہے کہ قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ آخرت میں روزِ محشرکو حساب کتاب بھی ہوگا۔ جب تک ہمارے اندر سانس ہے، ہم کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔ مگر بعد میں سوائے پچھتاوے کے، کچھ نہ ہوگا۔ یہ باتیں ہم سب جانتے ہیں مگر افسوس کہ مانتے نہیں۔ موت کی کوئی بات کرے تو اس کو بڑے ڈانٹ کر چپ کرا دیتے ہیں۔ کوئی کچھ کہتا ہے، کوئی کچھ کہتاہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ’’اپنی کالی زبان بند کرو۔‘‘ کوئی کہتا ہے ’’مرنا تو ہے، موت کو سوچ کرضرور زندگی کا مزہ خراب کرنا ہے۔‘‘ حالانکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’موت کو کثرت سے یادکرو۔‘‘
ہر انسان ہر روز مرتا ہے او ردوبارہ زندہ ہوتاہے۔صبح اٹھ کر جو مسنون دعا پڑھی جاتی ہے، اس کے ترجمے پر غورکریں تو بات سمجھ میں آ جائے گی۔ دراصل نیند بھی ایک طرح کی موت کی حالت ہوتی ہے۔ اسی لئے دعا میں اس بات پر شکر ادا کیا گیاکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مارنے کے بعد حیات دی۔مسنون دعاؤں کا آج کل تو بڑوں بڑوں کے ہاں کوئی اہتمام نہیں رہا۔ اور دعاؤں کا ترجمہ بھی یاد ہو، یہ باتیں تو شاذو نادر ہی نظر آتی ہیں۔کاش اب ابھی ہم لوگ سدھر جائیں۔
جب ہمارا یقین ہے کہ ہمیں مرنا ہے تو ہم نے اس کی کیا تیاری کی ہے؟ اور کیا مرنے کے بعد ہم کسی سے کوئی بات کہہ سکتے ہیں؟ کیا کوئی معاملہ کر سکتے ہیں؟ کسی کا ادھار چکانا ہو تو کیا چکا سکتے ہیں؟ … سب کا جواب ہے ’’نہیں‘‘۔ اگر مرنے سے پہلے کسی کے ادھار چکانے کے بارے میں کسی کونہ بتایا تو پھر کیا ہوگا؟ لوگوں کاقرض ادا کئے بغیر مرنا، بہت محرومی کی بات ہے۔ شہید بلاشبہ جنت میں جائے گا۔ اگر کسی وجہ سے جنت میں داخلہ رکے گا تو وہ صرف قرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے۔انسان کے ذمہ کوئی قضا نمازیں یا روزے ہیں اور اگر کسی کو نہ بتایا جائے تو کسی کو کیسے پتہ لگے گا؟ کئی امیر لوگ مر جاتے ہیں۔ ان کے پاس اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ اپنی قضا نمازوں کے فدیہ کی وصیت کرسکتے ہیں۔ مگر علم نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کرتے۔اس لئے ضروری ہے کہ ہر بالغ مرد و عورت کو لازمی طور پر وصیت تیار کرنی چاہئے۔ مبادا کب ملک الموت یا ان کی جماعت میں سے کسی سے ملاقات ہو جائے۔ اس وقت کچھ نہ ہو سکے گا۔ وصیت لکھنا انتہائی آسان کام ہے۔ بس خوفِ خدا ہونا ضروری ہے او رکچھ نہیں۔
بندے کے دادا مرشد حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی نور اللہ مرقدہٗ نے اپنی مشہور تصنیف ’’احکامِ میت‘‘ میں ایک وصیت نامہ نمونہ کے طور پر دیا ہے۔ اسی کو وضاحت کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے:
’’وصیت نامہ کے لئے بہتر اور آسان صورت یہ ہے کہ خاصی موٹی کاپی تیا رکر لیں۔ اس کے سر ورق پر ’’ وصیت نامہ ‘‘ اور ’’ضروری یادداشتیں ‘‘ لکھ دیا جائے اور اندر مندرجہ ذیل عنوانات میںسے ہر عنوان کے لئے کئی کئی ورق مخصوص کر لئے جائیں۔

نمازیں جوآپ کے ذمہ باقی ہیں: اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ایک ماہ کو 30دن کا تصور کریں اور ایک سال کو 365دنوں کا۔ہر نماز کا حساب الگ لکھ لیں یعنی فجر کا الگ، ظہر کا الگ اور اسی طرح باقی سب کا۔ 1
زکوٰۃ جو آپ کے ذمہ باقی ہیں۔ 2
رمضان اور منت کے روزے جو آپ کے ذمہ باقی ہیں۔ 3
حج فرض۔ 4
صدقۃ الفطر جو آپ کے ذمہ باقی ہیں۔ 5
قربانیاں جن برسوں کی آپ کے ذمہ باقی ہیں: ان کی قیمت کا صدقہ کرنا ہے کیونکہ قربانی کے ایام گذر جانے کے بعد قربانی نہیں ہو سکتی، اس کی قیمت کا صدقہ ہی واجب ہے۔ 6
صدقۃ الفطر جو آپ کے ذمہ اپنے(نابالغ) بچوں کے باقی ہیں۔ 7
سجدۂ تلاوت جو آپ کے ذمہ باقی ہیں۔ 8
قسم کے کفارے جو آپ کے ذمہ باقی ہیں۔ 9
دوسروں کا قرض جو آپ کے ذمہ باقی ہے۔ 10
آپ کا قرض جو دوسروں کے ذمہ ہے۔ 11
 آپ کی امانتیں جو دوسروں کے پاس ہیں۔ 12
دوسروں کی امانتیں جو آپ کے پاس ہیں۔ 13
وصیت نامہ (اس میں مزید ضروری ہدایات لکھ دیں۔ خ) 14

(درج بالا وصیت نامہ پُر کرنے کے لئے لازم ہے کہ تمام نکات کے بارے میں مکمل معلوما ت ہوں۔ مثلاً قربانی کس پر فرض ہوتی ہے؟ زکوٰۃ کس پر فرض ہوتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ لوگ اس میں بہت غلطی کرتے ہیں۔ خصوصًا قربانی میں تو بہت زیادہ۔ ایک گھر میں کئی لوگوں پر قربانی فرض ہوتی ہے مگر علم نہ ہونے کی وجہ سے صرف ایک قربانی کی جاتی ہے۔ گھر کا کوئی بڑا کر لیتا ہے۔
جوآپ پر فرض نہ ہو،اس جگہ لکھ دیں کہ فرض نہیں۔مثلاً حج فرض نہیں، زکوٰۃ فرض نہیں وغیرہ۔ خ)
نوٹ قضا نمازوں کے حساب کے لئے ادارے میں چارٹ دستیاب ہیں۔ تفصیلات کے لئے رابطہ فرمائیں۔

 

کاپی رائٹ © تمام جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ دارالعمل چشتیہ، پاکستان  -- ۲۰۱۴



Subscribe for Updates

Name:

Email: