اشغال
پیر صوفی غلام سرور شباب صاحب مد ظلہٗ
اشغال جمع ہے شغل کی اورشغل معنی مشغول رہنا۔
 

شغل آفتابی

اول ٹوپی روئی دار ایسی سلوائی جائے کہ سوائے آنکھوں کے دوسوراخوں کے اُس میں کوئی جگہ کشادہ نہ ہواور ابتدائے موسم سرما میں اس شغل کو شروع کیا جائے۔ترکیب اس کی یہ ہے کہ بوقتِ طلوعِ آفتاب بلندی پر رُوبہ مشرق کھڑے ہوکر اور ٹوپی چڑھا کر آفتاب کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھے۔یعنی پلک نہ جھپکے اوردیکھتے وقت تصور (یاحی یاقیوم)کا رکھیں۔اور روز بروز وقت کو بڑھائیں چند روز میں آفتاب کا قرص سیاہ ہو کر چکر کھاتا ہوا نظر آنے لگے گا اور ہر روز قریب آتا جائے گا۔یہاں تک کہ عرصہ چھ ماہ میں منہ سے داخل ہوکر قلب میں قیام کرے گا۔اُس وقت کوئی چیز اُس سے پوشیدہ نہ رہے گی۔انکشاف وتصرفات بے شمار ہوں گے۔خوراک ،دودھ، چاول اور ہمیشہ ٹھنڈی تاثیر والی غذاؤں کا استعمال رکھے اورآنکھوں میں ہر روز بوقت شغل گائے کا گھی سلائی سے لگاتا رہے۔یہ شغل بغیر پیرومرشد کی اجازت کے نہ کیا جائے۔

شغل منصوری

بغیر بالیں زمین پر لیٹ جائے اور ہر دوشہ رگ گردن پر دو انگشت رکھے۔اُن کی جنبش محسوس ہوگی۔اس تڑپ پر تصوراَنَاالْحَقْ قائم کرے چند روز میں زور شور سے آواز آنے لگے گی اور دریائے عشق موجزن ہو گا۔ذوق شوق روز افزوں ہوتا جائے گا۔یہاں تک کہ خودی سے بے خود ہو کر فنا فی اللہ ہوجائے گا۔اور اسی طرح شغل اسم ذات بھی کرتے ہیں۔یعنی اللہ کو اس تڑپ پر بہ تصور قائم کرے۔

شغل رُوحی

آنکھیں بند کر کے زبان کو تالو سے لگائے اور قلب کو اللہ وغیر اللہ سے خالی کرے۔ کسی قدر عرصہ کے بعد حقیقت بے نشانی وگم گشتگی طاری وساری ہوجاتی ہے۔جس کے بیان سے زبان گنگ ہے۔

شغل برزخ اکبر

یہ تین قسم کا ہے۔
اول : حبسِ دَم کرکے نظردونوں ابروؤںکے درمیان رکھے۔
دوم : نظر ہوا میں رکھے۔
سوم : دائیں آنکھ کھلی اور بائیں بند رکھے اور نظرکوناک کے داہنے نتھنے پرقائم کرے اور تصورکرے کہ نور بے کیف وجودِ مطلق کاکہ منزہ تقیدات سے ہے، ظہور پکڑے گا۔پھر نور ظاہر اور فنائے حقیقی حاصل ہوگا،چنانچہ حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شاہ علاؤالدین علی احمد صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ کیا کرتے تھے اور ان دونوں حضرات کا اسی میں خاتمہ ہوا۔لیکن ہر سہ قسم میں پلک نہ جھپکے اور جو کچھ دیکھے یقین جانے کہ میرا یہ مقصود ہے۔اس کوشغل ہوائی بھی کہتے ہیں۔

شغل برزخ کبیر

انسان کامل کے ظاہر وباطن کو اپنا ظاہر وباطن قرار دے۔یعنی اُس کے ظاہری وجود کو اور اُس کے باطنی وجود کو اپنا باطنی وجود تصور کرے۔عرصہ قلیل میں اُس کے اسرار اپنے میں نمایاں دیکھے گا۔لیکن ہمہ تن مصروف ہو۔شب وروز یہ شغل جاری رکھے۔

شغل اسم ذات

اس کا طریقہ ہے کہ آنکھیں بند کرکے قلب صنوبری میں تصور نقش اسم ذات برنگ طلائی کرے۔یہاں تک کہ محو ہو جائے، اس میں بہت اسرار ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ اول کاغذ کی لوح پر قلب صنوبری کی صورت بنوائے اور اسم اللہ کو اس کے اندر طلائی حروف میں لکھوائے پھر اس لوح منقش کو اپنے سامنے رکھ کر اسم مذکور بغور دیکھے اور آنکھیں بند کر کے اپنے آئینہ دل میں اس اسم طلائی کو برنگ نور ذات منقش دیکھے، چند روزمیں وہ نور خیال متشکل ہو جائے گا،اس حالت میں سالک اپنے آپ کو اس نقش کے مقابل یا بجانب تحت یا بطرف یمین وشمال سمجھے گا۔اس وقت سالک کو لازم ہے کہ بہت جدوجہد کر کے اپنے آپ کو اس نور ذات تک پہنچائے، اس کو سیرالی اللہ کہتے ہیںاور جب اپنے آپ کو درمیان للہ کے دیکھے تو پھر اس سے ترقی کر کے اپنے آپ کو درمیان ہردو لام کے پہنچائے اور قیام کرے۔پھر یہاں سے بھی بہ کو شش تمام اپنے آپ کو درمیان درجہ لام وہا کے پہنچائے پھر یہاں سے بھی بہ ہمت تمام ترقی کر کے حلقہ ہا میں پہنچ جائے۔ابتدائے سیر و سلوک میں سالک اپنے سر کو حلقہ ہا میں داخل پائے گا۔آخر کار اپنے تمام جسم کو حلقہ ہا میں پائے گا۔اس وقت سالک جمیع آفات و بلیات وخطرات سے محفوظ ہو کر حق تعالیٰ کو محیط اور اپنے آپ کو محاط دیکھے گا۔اس کا نام سیرفی اللہ ہے اور جب قطرہ دریا میں فانی وذرہ نور آفتاب ذاتی سے منور ہو کر اور پھر اس مقام عالی سے اپنے پایہ اسفل کی جانب نزول کرے گا تو اس وقت اپنے ابنائے جنس کو اپنے ہمراہ عروج و نزول کرائے گا۔ پس اس آمدورفت و عروج و نزول کو سیر عن اللہ باللہ کہتے ہیں۔

شغل آئینہ

ایک بڑے آئینہ کو اپنے روبرو رکھے لیکن نظر سے ذرا بلند ہو اور ٹکٹکی باندھ کرآئینہ کو دیکھنا شروع کرے اور پلک نہ مارے اور یَاحَیُّ یَاقُیُّوْمُکو دل میں پڑھتا رہے اور وقت کو بڑھائے یہاں تک کہ تین گھنٹہ کی نوبت پہنچے اور اپنی پتلی یعنی مردم چشم پر نگاہ کو قائم کرے۔ہر گاہ کہ طالب کی نگاہ آنکھ کی پُتلی پر پڑے گی، اس وقت جو حال وارد ہو گا اس کا بیان میں نہیں کر سکتا۔ہاں اتنا کہتا ہوں کہ آنکھوں کی پتلیاں صعود کر کے ام الدماغ کے نقطہ اخفی میں داخل ہو کر سویداء قلب میں قائم ہوں گی اور ظاہر و باطن ایک ہو جائے گا۔

شغل نیم خوابی

اس کا طریق یہ ہے کہ بوقت خواب اپنے دل میں یہ مضبوط ارادہ کر لے کہ میں خواب غفلت میں غافل ہو کر نہ سوئوں گا۔یاحی یاقیوم کا دل میں خیال رکھے، جب نیند کا غلبہ ہو آنکھیں کھول لیا کرے اور اس عادت کو بڑھائے ایک سال میں خواب وبیداری یکساں ہو جائے گی۔

دلش بیدار و چشمش در شکر خواب

کا مضمون ہو جائے گا۔اس شغل کا بھی وہی اثر ہے جو شغل آئینہ میں ہوتا ہے۔اگر ہر دو شغل کیا کرے تو سبحان اللہ جلد فائدہ ہو۔

شغل سلطاناً نصیرا

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے۔اس کے ثمرے بہت ہیں خصوصاً خطرہ بندی میں عجیب وغریب ہے۔ طریق اس کا یہ ہے کہ صبح وشام قبلہ رُخ دوزانو بیٹھے اور پورے طور سے خاطر جمع کرکے دونوں آنکھوں کی نظر یا ایک آنکھ کی نظر بند کرکے دوسری آنکھ کی نظر ناک کے نتھنے پر ڈالے اور بغیر پلک جھپکائے چراغ کے نور یا ستارہ کے نور کی طرح غیر معین نور کا ملاحظہ کرے اور ایسا مستغرق ہو کہ محو ہوجائے۔ابتدا اِن دونوں میں درد اورپانی بہے گا۔چند روز کے عرصہ میں جب مزاولذت بڑھ جائے گی۔درد جاتا رہے گا اور نظر ٹھہر جائے گی اورشاغل کو تمام چہرہ اپنا سامنے نظر آئے گا۔جیسا کہ آئینہ میں نظر آتا ہے اور نور سے منور ہوگا اور نور بے کیف ولطیف ظاہر ہوگا۔

شغل سلطاناً محمودا

جاننا چاہیئے کہ جیسے سلطانا نصیرا کے شغل میں ناک کے نتھنے پر نظر رکھتے ہیں،ایسے ہی اس میں دونوں ابروؤں کے درمیان میں نظر رکھتے ہیں۔اس شغل میں شاغل کو اپنا سر نظر آنے لگتا ہے، جب سر نظر آتا ہے تو عالمِ بالا کی کیفیت سے مطلع ہوتا ہے۔(جاری ہے)۔
نوٹ: مضمون کا باقی حصہ نومبر2018کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں۔
 



Subscribe for Updates

Name:

Email: