شیخ العاملین، استاذالعلماء حضرت
مولانا پیرمحمد امان اللہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ
مختصر حالات زندگی

مولانا فضل الرحمٰن نقشبندی

استاذ محترم کو ہم سب سے بچھڑے ہوئے پانچ سال ہو گئے۔ ۱۱ستمبر کو حضرت ؒ کا انتقال ہوا تھا۔ ان کی یاد میں یہ مضمون شائع کیا جا رہا ہے۔ خ
 
نام ونسب

شیخ العاملین، بلند پایہ عالم، روشن ضمیر صوفی، عارف پاک طینت، صاحب تصوف، مرشد کامل، ہمدردی اور خلوص میں قرون اولیٰ کی یادگار، مادرزادولی، آفتاب علم ومعرفت، صاحب فہم وفراست، پرتاثیر واعظ و خطیب، علمی خاندان کے چشم وچراغ، شیخ طریقت، حضرت مولانا پیرجی محمد امان اللہ نقشبندیؒ 1940ء کو میلسی کے قصبہ خانپور میں حضرت مولانا دین محمد ؒ کے گھر پیدا ہوئے۔

حصول تعلیم

حضرت کے والد بزرگوار باعمل عالم تھے، انہوں نے اپنی تمام اولاد کو حصول علوم دینیہ میں لگایا چنانچہ انہوں نے اس جذبہ کے تحت اپنے اس فرزند ارجمند کو ابتداء ہی سے تعلیم قرآن کریم پرلگایا۔ مولانا عطاء محمد صاحب کوٹ اعظم خیر پور ٹامیوالی سے آپ نے قرآن کریم پڑھا۔ آپ بچپن ہی سے اخلاق وعادات حمیدہ میں دوسرے بچوں سے ممتاز تھے، بعد ازاں فاضل دیوبندشیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کے تلمیذ خاص مولانا محمد بخشؒ اور برادر کبیر فاضل اجل فقیہ العصر مفتی محمد کلیم اللہ ؒسے عربی، فارسی اور ابتدائی تعلیم حاصل کی، اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے آپ جامعہ قاسم العلوم ملتان چلے گئے، وہاں آپ نے اپنے وقت کے عظیم اصحاب علم وکمال سے علم حاصل کیا، آپ کے چند معروف اساتذہ مندرجہ ذیل ہیں :
(۱) فقیہ العصر بحرالعلوم والفنون سرخیل جمعیت مفتی محمود احمد صاحبؒ (سابق وزیراعلیٰ سندھ)
(۲)شیخ الاسلام حافظ القرآن والحدیث مولانا محمد عبداللہ درخواستی ؒ
(۳) شیخ طریقت ولی کامل مفسرقرآن حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلوی ؒ
(۴) شیخ کامل حضرت مولانا محمد موسیٰ خان روحانی بازی ؒ
(۵) شیخ الحدیث استاذ العلماء مولانا فیض احمد صاحب ککروی میلسی ؒ
( ۶) فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی عبدالرحمن ؒ جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا
(۷) حضرت مولانا عبدالھادی صاحب ؒ ترنڈہ محمد پناہ
ویسے بھی مولانا محمد امان اللہ ؒ کے خاندان کے کئی افراد نے علمی اور دینی حلقوں میں نام پیدا کیاہے۔

تصوف وسلوک

علوم ظاہری میں کمال حاصل کرنے کے بعد آپ علوم باطنیہ کے حصول میں لگے، سب سے پہلے آپ نے اپنا تعلق حضرت شیخ الہند کے شاگرد شیخ طریقت مفسرقرآن حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلویؒ شجاع آبادی سے قائم کیا، اور برسوں حضرت کی خدمت میں رہ کر فیض حاصل کیا، حضرت بہلویؒ آپ سے خصوصی محبت وشفقت فرماتے اور اپنے قریب جگہ عنایت فرماتے، حضرت بہلویؒ نے آپ کواجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا، حضرت بہلویؒ کے بعد آپ نے شیخ الاسلام حافظ القرآن والحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی ؒ سے تعلق اصلاح وارادت جوڑا اور وہ یہ زمانہ تھا کہ جب حضرت درخواستی کے سرچشمہ فیض سے سینکڑوں طالبانِ حق سیراب ہو رہے تھے، آپ کی معرفت کی دھوم مچی ہوئی تھی، کچھ ہی عرصہ صحبت میں رہے، حضرت درخواستی نے موصوف کو مجربات وعملیات اورعلوم باطنیہ سے نوازا، علاوہ ازیں شیخ حضرت مولانا محمد امان اللہ ؒ نے جن حضرات کی صحبت اور ان سے کامل فیض حاصل کیااور ان کے مجربات اور عملیات کو اپنے سینے میں محفوظ کیا، ان بزرگ شخصیات کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں :
(۱) شیخ طریقت، ولی کامل حضرت سید زوار حسین شاہ ؒ (کراچی)
(۲) شیخ طریقت، ولی کامل حضرت مولانا غلام محمد الدین قریشی ؒ (کراچی)
(۳)حضرت شیخ قاضی نجم الدین ؒ (ڈیرہ اسماعیل خان )
(۴) شیخ المشائخ حضرت مولانا خواجہ خان محمد ؒ (کندیاں شریف)
(۵)مرشد عالم حضرت مولانا پیر غلام حبیب نقشبندی ؒ (چکوال)
(۶)ولی کامل حضرت پیرا میر خسرو ؒ (مانسہرہ)
(۷)حضرت مولانا سید عبدالمالک شاہ ؒ (چوک قریشی)

دعوت وتبلیغ

زمانہ طالب علمی سے موصوف کو فن خطابت سے خاصہ شغف تھا۔ فراغت کے بعد آپ نے اپنی خطابت کا آغاز میلسی آرمی کی جامع مسجد سے کیا، یہ جنرل ایوب خان کا زمانہ حکومت تھا، 20سے22سال تک شہر کی مرکزی جامع مسجد مدنی جو تبلیغی جماعت کا مرکز تھی وہاں اپنی خطابت کے جوہر دکھائے، سامعین وقت سے پہلے حاضر ہو جاتے۔ آپ کے آنے سے پہلے مسجد مکمل بھری ہوئی ہوتی تھی، 12سال تک عارف والا میں مستقل جمعہ پڑھایا، یہاں بھی حلقہ سامعین دن بدن بڑھتا ہی رہا، عارف والا کے بعد میلسی شہر کی خوبصورت ترین اور عظیم مسجد رحمانیہ میں مستقل جمعہ پڑھاتے رہے، مولانا موصوف وقت کے پابند تھےاور ہمیشہ ایک ہی موضوع پر گفتگو فرماتے۔ قرآنی آیات واحادیث سے نکات کا استدلال ان کی گفتگو کاخاصہ لازمی تھی جواپنے اندر ایک چاشنی وحلاوت رکھتے تھے۔ آپ کے وعظ میں درد محبت اوراحیاء سنت کی جھلک ہوتی تھی، جوسامعین وحاضرین کیلئے نسخہ کیمیاء ہوتی، آپ کے وعظ سے متاثر ہو کر کئی نوجوانوں کی زندگیاں بدلی۔

فیض عام

مشرکین وملحدین جادوگروں سے حضرت شیخ نے خلق خدا کے ایمان کو بچایا، قرآنی آیات اور مجربات مشائخ سے علاج فرماتے، ہمیشہ اپنے اکابر ومشائخ کادامن تھامے رکھا، امانت اکابر کوآگے منتقل کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا، یہی وجہ ہے کہ تاریخ پاکستان میں حضرت مولانا محمد امان اللہ ؒ کا فیض پوری دنیا میں سب سے زیادہ پھیلا ہے، ملک کے تقریباً ہر شہر میں آپ کے تلامذہ موجود ہیں، جو خدمت انسانی میں اپنے محسن استاذ کے طرزِ عمل کواپنائے ہوئے ہیں۔ بیرون ملک خصوصاً سعودی عرب، عمان، لندن، کینیڈا، افریقہ، امریکہ اور دیگر ممالک میں آپ کے شاگردعاملین عوامی خدمت میں مصروف ہیں۔مولاناموصوف کاکام، اس شعبہ میں نمایاں رہا۔ وہ اپنی مثال اپنے زمانے میں نہیں رکھتے تھے۔ آپ کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے، جس کا یہ مضمون متحمل نہیں ہو سکتا۔

عظیم محسن ومربی

انتہائی محبت وپیار کرنے والے اللہ کے ولی تھے۔ ہر ایک کو اپنی محبت سے نوازتے ،ہر آنے والا آپ سے بآسانی ملتا، اسے ملاقات اوراپنی بات سنانے میں کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، امیر وغریب کی آپ کے یہاں کوئی تخصیص نہیں تھی، برابر ہر ایک کو فائدہ تامہ پہنچاتے، اگر کوئی نادار غریب مریض آجاتا اس کو بٹھاتے، چائے پلاتے، کھانا کھلاتے اور جاتے ہوئے اس کو کرایہ وغیرہ بھی دیتے، ویسے بھی حضرتؒ کادسترخوان ہر وقت بچھارہتا تھا، بندہ کو جو بھی حضرت کا شاگرد ملا ہے، اس نے آپؒ کے بارے میں تعریفی کلمات کہے ہیں اور آپ کی شفقت واحسان کو خوب بیان کیاہے، اس کامشاہدہ میں نے بھی کیا۔

روحانی معالج

آپ ایک بہترین روحانی معالج تھے، آپ کا طریقہ علاج ایک دعوت تھی، آپ فرمایا کرتے تھے کوئی دعویٰ نہیں، کوئی وعدہ نہیں، شفاء من جانب اللہ، ملک کےکافی معروف اکابر، مشائخ، علماء، وکلاء اور افسران بالا آپ کے زیر علاج رہے۔

دینی تحریکات میں اہم کردار

ملک میں اٹھنے والے ہر صدائے حق کی سرپرستی کی، اسلامی سیاسی جدوجہد کے حامی اور نظام اسلام کے علمبردار تھے، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفےٰ ﷺ، مجلس احرار اسلام اور جمعیت علماء اسلام سمیت جتنی تحریکیں چلیں آپ ان سب کے روح رواں تھے، آپ نے اپنی بے مثال خطابت اور کوشش کے ذریعہ ہر ایک جماعت میں دل کھول کر کام کیا، جماعتی تقسیم کے ہمیشہ مخالف رہے۔ اتحاد کے داعی تھے۔ تما م اکابر کے معتمد علیہ وقابل فخررفیق رہے۔ سیاست کے کوچہ ملامت میں آپ کا دامن وکردار ہمیشہ صاف اور اجلا رہااور کبھی حق کا دامن نہ چھوڑا۔ آپ اکابر واسلاف کے مسلک ومشرب کے علمبردار بھی تھے اور ناشر بھی۔ آپ کی مسجد تمام تحریکات کامرکز تھی۔

مساجد ومدارس کی سرپرستی

ملک کے مختلف شہروں میں مختلف مساجدومدارس کی آپ نے سرپرستی فرمائی، ان کاسنگ بنیاد آپ نے رکھا خصوصاً لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، کراچی، وہاڑی اور میلسی کی مختلف مساجد ومدارس کی سرپرستی فرمائی اور ان کے ساتھ مالی تعاون بھی فرماتے رہے۔ حضرت نے دارالعلوم رحمانیہ ہری چند میلسی میں ایک عظم الشان مدرسہ کی بنیاد رکھی اور ساتھ ہی جامع مسجد ختم نبوت کی بنیاد حکیم العصر حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی صاحب مدظلہٗ امیرختم نبوت کے دست مبارک سے رکھوائی۔ آپ اپنی سرپرستی میں مسجد کی تعمیر فرمارہے تھے، جس کا کام چھتوں تک پہنچ چکا ہے۔ مدرسہ اورمسجد ابھی تک زیر تعمیر ہیں۔

تصنیف وتالیف

حضرت عالم نبیل، خطیب بے مثل، روحانی معالج، صاحب نسبت بزرگ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین صاحب قلم بھی تھے، آپ کے مضامین مختلف رسائل وجرائد کی زینت بنے، عملیات میں آپ کی شہرۂ آفاق اور مقبول ترین کتاب ’’شفاء المریض مع علاج المریض‘‘ ہے جس کی دوسری جلد بھی چھپ چکی ہے، جوعملیات کے سلسلہ میں لکھی گئی بہترین تصنیف ہے، موصوف نے عملیات کے مختلف رسائل ترتیب دیئے جواپنے تلامذہ کو عنایت فرماتے تھے۔

انتقال پُرملال

آپ ہزاروں لوگوں کو فیض پہنچاتے ہوئے اور اپنے علم سے دوسروں کو سیراب کرتے ہوئے 11ستمبر2013ء بروز بدھ کی رات اڑھائی بجے کے قریب کلمہ طیبہ کاورد کرتے ہوئے سوئے آخرت چل بسے۔ آپ کے انتقال کی اطلاع جنگل میں آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ ہر طرف سے علماء، صلحاء، تلامذہ، مریدین، متوسلین سب جمع ہونا شروع ہو گئے۔ جنازہ گاہ نے تنگی دامن کا شکوہ کیا، آپ کی نماز جنازہ کیلئے ایک وسیع میدان کا بعدازاں انتخاب کیاگیا، پورے ملک سے آئے ہوئے اصحاب علم وفضل وکمال کا سمندر آپ کے جنازہ پر امڈ آیا۔عظیم سکالر قاری محمد حنیف جالندھری مدظلہٗ کا پُرمغز بیان ہوا، جالندھری صاحب نے حضرت کے سفرآخرت پرتاریخی جملہ کہا: امان اللہ فی امان اللہ،مختلف مشائخ وعلماء نے آپ کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا، حکیم العصر، شیخ المحدثین حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی امیر عالمی مجلس ختم نبوت نے نمازہ جنازہ پڑھائی، زیارت عام کرائی گئی، ہر آنکھ اشک بار تھی، حضرت کا نورانی، خوبصورت اور پُروقار چہرہ کو دیکھ کر ہر زائر کی زبان پر تھا سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ۔

پسماندگان

آپ نے اپنے پیچھے پانچ لائق، فائق، فرزند چھوڑے، جن کانام درج ذیل ہے:
(۱) مولانا حکیم محمد ثناء اللہ، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور۔ خطیب رحمانیہ مسجد میلسی
(۲)قاضی پیر محمد عطا اللہ صاحب قادری،دارالعمل خانقاہ نظامیہ میلسی
(۳)مولانا محمد ذکاء اللہ مسعود، فاضل جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا، خطیب مرکزی جامع مسجد مدنی میلسی
(۴)حکیم ضیاء اللہ فاضل طب والجراحت اسلام آباد
(۵)مولانا فضل الرحمن صاحب، فاضل جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا، مسند نشین دارالعمل خانقاہ نظامیہ میلسی
حضرت کے صاحبزادگان صاحب اخلاق اور علم وعمل کے مرقع ہیں۔ حضرت نے سات بیٹیاں چھوڑیں اور ہزاروں شاگرد، متعلقین ومتوسلین حضرات۔
حضرت کے غسل وتدفین میں پیر طریقت، ولی کامل حضرت حافظ پیر شوکت علی نقشبندی انصاری جانشین خانقاہ غفوریہ مدنیہ صادق آباد اور ان کے صاحبزادگان شریک رہے، علاوہ ازیں تدفین میں بہت سے علماء ومشائخ شریک رہے۔
 
 



Subscribe for Updates

Name:

Email: