توکل علی اللہ
از تحریر: قیصراحمد بی اے کراچی
زندگی میں ایسے کئی مواقع آئے جب اللہ پربھروسہ
اور اعتماد کاایسامعجزہ نمااور خوش نماانجام ہوا کہ ایمان کی دولت میں مسلسل اضافہ
ہوتا رہا۔ اس ذات کی کبریائی کے قربان جائیے کہ وہ کس طرح اپنے ایک ایک بندے کی شہ
رگ کے قریب ہوتاہے اور ہمہ وقت اپنے لطف وکرم کی بارش برسانے کو تیار ، یہ تو ہم ہی
غافل اور نادان ہیں جو اسباب کی جستجو میں مسبب کو بھولتے رہتے ہیں اور قرآن کی
پیہم پکار پر کان نہیں دھرتے۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے
نصیحت کی درخواست کی ۔ ام المومنینؓ نے فرمایا اگر کوئی معاشرہ، کافررد دوسرے ذرائع
چھوڑ کرفقط اللہ پر بھروسہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام ذمہ داری خود لے لیتا ہے۔
یہ ایمان کا انعام ہے۔
جب کوئی اللہ کی عبادت میں خود کومشغول کرلیتا ہے تو اس کی دعابِن مانگے پوری ہونے
لگتی ہے اوراللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ ، کان اور آنکھیں بن جاتے ہیں ۔
توکل علی اللہ کی سب س بڑی مثال ابراہیم خلیل اللہ کی ہے۔ نمرود جو خود کو خدا
کہلواتا تھا۔ اللہ کے خلیل علیہ السلام اسے ایک انسان سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے
تو انہیں زندہ جلانے کی سزا دی گئی اور بہت بڑی آگ دہکائی گئی جس کے قریب بھی جانا
ممکن نہ تھا توفیصلہ کیاگیا کہ منجنیق کے ذریعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس آگ
میں پھینکا جائے۔ اولوالعزم پیغمبر اس سزا کے لئے تیار تھے لیکن اس یقین کے ساتھ کہ
اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہاہے۔ منجنیق سے پھینکنے کے بعد آگ سے فاصلہ تیزی سے کم
ہوتا جائے تاہم فضاء ہی میں جبرائیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اور پیشکش کی کہ ہم
آپ کی مدد کو حاضر ہیں۔ وقت کانبی دہکتی آگ کے سامنے بھی اپنے پروردگار سے مایوس
نہیں۔ جو اب ملاحظہ فرمائیے کہ سوائے اللہ کے مجھے کسی کی مدد قبول نہیں اور
امرربانی جاری ہوتا ہے۔
قُلْنَا یٰنَارُ کُـوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ
(سُوْرَة الْاَنْۢبِيَاۗءِ: ۶۹)
ترجمہ:ہم نے حکم دیا اے آگ ! ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم پر سلامتی بن جا۔
اور گلزار بن جاتی ہے آگ اور اللہ کا خلیل پھولوں کے درمیان سے بہ سلامتی ومامون
چلتا ہوا باہر آجاتا ہے۔ نمرود کی خدائی اور اس کا جاہ وجلال سب خاکستر، جب انسان
خدا سے لڑنے نکلتا ہے توانجام ایسا ہی ہوتاہے۔
اس خلیل کی ایک اور ادا دیکھئے کہ معصوم اسماعیل علیہ السلام اور بیوی ہاجرہ علیہا
السلام کو مکہ کی چٹیل سرزمین میں چھوڑے جاتے ہیں ۔ قرآن حکیم اس بے آب وگیاہ
میدان کو وادی غیر ذی زرع کہتاہے۔بیوی دریافت کرتی ہے کہ ہمیں کس کے سہارے چھوڑے
جاتے ہو، شوہر کی خاموشی پر پوچھتی ہیں کہ یہ اللہ کا حکم تو نہیں ۔
مثبت جواب پر وہ صبر کی چٹان عورت کہتی ہے۔ ’’پھر کوئی غم نہیں ۔ اللہ ہمیں ہر گز
ضائع نہیں کرے گا۔ ‘‘ لیکن پانی کا چھاگل ختم ہوتے ہی معصوم اسماعیل پیاس سے بے چین
اور یہ ساری کیفیت پروردگار کے سامنے اور اس کے حکم سے جبرائیل امین علیہ السلام اس
مقام پرجہاں معصوم اسماعیل ایڑیاں رگڑرہے تھے اپنا پر مارتے ہیں اور پہاڑ سے زم زم
جاری ہو جاتا ہے جو آج چار ہزار سال بعد بھی جاری وساری ہے۔ کوئی اللہ پر بھروسہ
تو کرے، قدرت معجزہ دکھاتی ہے۔ جب بندہ اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا
وکیل بن جاتا ہے جو اس کے صفاتی ناموں میں سے ایک یعنی مدد گار ۔ آئیے دیکھتے ہیں
قرآن مومنین کو اس کی ترغیب کیوں کردیتا ہے۔
(۱) اِذْ ھَمَّتْ طَّاىِٕفَتٰنِ مِنْکُمْ اَنْ تَفْشَلَا۰ وَاللہُ وَلِیُّہُمَا۰ۭ
وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (سُوْرَةُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۱۲۲)
ترجمہ: جب تم میں سے دوگروہوں نے بزدلی دکھانے کا قصد کیا تھا حالانکہ اللہ ان کا
حامی ومددگار تھا اور مومن کو چاہیے کہ اللہ ہی پربھروسہ کریں ۔
(۲)فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۰ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ
الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۰۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ
وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ۰ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ۰ۭ اِنَّ
اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ (سُوْرَةُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۱۵۹)
ترجمہ:سو یہ اللہ کی کتنی بڑی رحمت ہے کہ تم (اے محمدؐ)ان کے لئے نرم مزاج ہو۔ اگر
تم ہوتے سخت مزاج اور سنگ دل تو یہ تمہارے گردوپیش سے ضرور منتشر ہوجاتے۔ سو تم ان
کومعاف کردواور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان سے مشورہ لیتے
رہو اور پھر جب تم پختہ فیصلہ کرلو تو اللہ پر توکل کرو۔ بے شک اللہ توکل کرنے
والوں کو دوست رکھتا ہے۔
(۳) اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ۰ وَاِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ
ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۰ۭ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ
الْمُؤْمِنُوْنَ
(سُوْرَةُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۱۶۰)
ترجمہ:اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پرغالب آنے والا نہیں اور اگر اللہ تم
کو چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے اورمومنوں کومحض اللہ ہی پر توکل
کرناچاہیے۔
(۴) وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَۃٌ۰ۡفَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَاىِٕفَۃٌ
مِّنْھُمْ غَیْرَ الَّذِیْ تَقُوْلُ۰ۭ وَاللہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ۰
فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ۰ۭ وَکَفٰى بِاللہِ وَکِیْلًا
(سُوْرَةُ النِّسَاۗءِ: ۸۱)
ترجمہ:اور کہتے ہیں ہم فرماں بردار ہیں مگر جب تمہارے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ان کا
پاک گروہ راتوں کو اس کے خلاف مشورہ کرتا ہے جو تم کہتے ہو اور یہ جو مشورہ کرتے
ہیں اللہ لکھ رہا ہے۔ سو ان کی پرواہ نہ کرو اور اللہ پربھروسہ کرو اور اللہ کافی
ہے کار ساز۔
( ۵) یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْ
ہَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ فَکَفَّ اَیْدِیَہُمْ
عَنْکُمْ۰ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۧ
(سُوْرَةُ الْمَاۗئِدَةِ: ۱۱)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو تم پر کیا جب ایک گروہ نے قصد
کیا تھا کہ تم بر دست درازی کرے تو اس نے اس کے ہاتھ تمہاری طرف بڑھنے سے روک دیئے
اوراللہ سے ڈرتے رہو اور ایمان والوں کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں ۔
(۶) قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمَا
ادْخُلُوْا عَلَیْہِمُ الْبَابَ۰ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ۰ۥ
وَعَلَی اللہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (سُوْرَةُ
الْمَاۗئِدَةِ:۲۳)
ترجمہ:ان ہی ڈرنے والوں میں سے دو مردوں نے کہا کہ اللہ نے جن پرانعام کیا تھا کہ
ان پر حملہ کرکے دروازے میں داخل ہو جائو پھر جب داخل ہو جائو گے تم اس میں تو بے
شک تم ہی غالب ہو گے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تم ایمان والے ہو۔
(۷)وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ۰ۭ اِنَّہٗ
ہُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(سُوْرَةُ الْاَنْفَالِ: ۶۱)
ترجمہ:اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جائو اور بھروسہ کرو
اللہ پر ، بے شک وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
(۸) فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ۰ۤۡ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۰ۭ عَلَیْہِ
تَوَکَّلْتُ وَھُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ۧ (سُوْرَةُ التَّوْبَةِ:۱۲۹)
ترجمہ:پھراگر یہ منہ پھیرتے ہیں تو اے نبی کہہ دو میرے لئے اللہ کافی ہے۔ اس کے سوا
کوئی معبود نہیں اور میں نے اس پر بھروسہ کیاہے اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔
(۹) وَقَالَ مُوْسٰى یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ فَعَلَیْہِ
تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ۸۴ فَقَالُوْا عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا۰ۚ
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِــمِیْنَ۸۵ۙ (سُوْرَةُ
يُوْنُسَ: ۸۴-۸۵)
ترجمہ:اورکہا موسیٰ نے اے میری قوم! اگر اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پربھروسہ کرو
اگر تم مسلمان ہو توانہوں نے کہا ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا۔ اے ہمارے مالک ہمیں
ظالم لوگوں کے ہاتھوں آزمائش میں نہ ڈالیو۔
(۱۰) اِنِّىْ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ رَبِّیْ وَرَبِّکُمْ۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ
اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِہَا۰ۭ اِنَّ رَبِّیْ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
(سُوْرَةُ ھُوْدٍ:۵۶)
ترجمہ:بے شک میرا بھروسہ اللہ پر ہے جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی۔ نہیں ہے
کوئی جاندار جسے اس نے پیشانی کے بالوں سے پکڑا ہواہے۔ بے شک میرا رب صراط مستقیم
پرموجود ہے۔
(۱۱)قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ
وَرَزَقَنِیْ مِنْہُ رِزْقًا حَسَـنًا۰ۭ وَمَآ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَکُمْ اِلٰی
مَآ اَنْہٰىکُمْ عَنْہُ۰ۭ اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ۰ۭ
وَمَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّا بِاللہِ۰ۭ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ (سُوْرَةُ
ھُوْدٍ: ۸۸)
ترجمہ:اس(شعیبؑ)نے کہا دیکھو اے میری قوم! اگر میں قائم ہوں کھلی شہادت پراپنے رب
کی طرف سے اور عطا کیا ہو اس نے مجھے اپنے ہاں سے اچھا رزق اور نہ میرا یہ ارادہ ہے
کہ میں اس بات کے خلاف کروں جس سے میں تم کو منع کررہا ہوں۔ میں نہیں چاہتا مگر
اصلاح کرنا اپنی بساط کے مطابق ۔ نہیں ہے مجھے توفیق مگر الہ کی طرف سے اور میرا
بھروسہ اس پرہے اورمیں اس سے رجوع کرتا ہوں ۔
(۱۳)وَلِلہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ
فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ۰ۭ وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
(سُوْرَةُ ھُوْدٍ:۱۲۳)
ترجمہ:اور اللہ کے لئے ہی ہے آسمانوں اور زمین کا غیب اور تمام معاملات اس کی طرف
لوٹائے جاتے ہیں۔ سو اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو، تیرا رب ان کاموں سے
بے خبر نہیں جو تم کرتے ہو۔
مندرجہ بالا قرآنی مثالیں اس دعویٰ کے لئے کافی ہیں کہ مومن بندہ اپنی تمام
ترجدوجہد اور سعی کے بعد اللہ پربھروسہ کرتا ہے اور نتائج کو دل سے تسلیم کرتا ہے ۔
مومن کی شان یہ ہے کہ سراء اور ضراء یعنی خوشی اور دکھ میں حالت سجدہ میں ہوتا ہے۔
وہ خوشی میںپاگل ہو کر ڈھول تاشے پیٹتے آپے سے باہر نہیں ہوتا اور نہ دکھ اور غم
میں نوحہ وماتم کرتا ۔
الحمد للہ علی کل حال، ہرحال میں پاک پروردگار کی حمدوثناء ، اسے اس سے مفر نہیں۔
یہی تو ابدی ٹھکانہ ہے وہ اورکہاں جاسکتا ہے ۔
مولانا محمد علی جوہر کا یہ شعر بڑی گہرائی لئے ہوئے ہے۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لئے ہے
سید العارفین حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ کاواقعہ قارئین کیلئے خارج از دلچسپی
نہیں ہو گا۔
اپنے وصال کے بعد حضرت ایک شاگردکے خواب میں آئے۔ اس نے بے ساختہ پوچھا: ’’حضرت
کیا معاملہ رہا؟ ‘‘
جواب آیا : ’’ میں بہت شرمندہ ہوا۔ ‘‘
شاگرد نے مایوسی کے عالم میں کہا ’’حضرت پھرہمارا کیابنے گا جب آپ کا یہ حال ہے
؟‘‘
حضرت نے فرمایا: ’’ بس اپنی اپنی فکر کرو ، یہاں عمل کاسکہ چلتا ہے ،کچھ اورنہیں ؟
شاگرد بے چین ہو کر بولا: ’’کچھ تو بتائیں کیا ہوا؟ ‘‘ آخر حضرت گویا ہوئے: ’’جب
تم لوگ قبرستان سے لوٹے تو فرشتے حاضر ہوئے اورمجھے اٹھنے کا اشارہ کیاکہ باری
تعالیٰ کےحضور پیشی ہے۔ وہ مجھے لے کر چلے ۔ سامنے لق ودق میدان، افق پر روشنی، اس
روشنی سے آواز گرجی: بایزید تم دنیا سے میرے لئے کیا لائے؟ میں نے کہا ساری زندگی
تیری توحید کی تبلیغ کی اور توحیدہی لے کرآیا ہوں ۔‘‘
یہ سنتے ہی سرزنش سے بھرپور آواز گونجی با یزید اپنی زبان کو لگام دو، لفظ توحید
جچتا نہیں۔ یاد کرو وہ رات تمہارے پیٹ میں درد اٹھا ،تم بھاگے بھاگے حکیم کے پاس
پہنچے، اس نے پوچھا کیا کھایاتھا؟ تم نے بتایا کہ دودھ پیا تھا۔ حکیم کے پوچھنے پر
کہ کیا وہ گرم تھایا ٹھنڈا؟ اس میں شیرینی شامل تھی؟ تم نے جواب دیا کہ دودھ پھیکا
اورٹھنڈا تھا۔ حکیم نے دوا دے دی اور تلقین کی کہ دودھ ہمیشہ گرم اور میٹھا پیاکرو
اور بایزید تم نے یقین کر لیا کہ تمہارے پیٹ میں ہونے والا درد میں نے پیدا نہیں
کیا تھا بلکہ دودھ کے سبب تھا۔ تم توحید کی بات کرتے ہو۔ فرشتے پھر مجھے واپس لے
آئے۔
شاگردنے کانپتے ہوئے سوال کیاحضرت ہمارا کیا بنے گا؟ جو لوگ اللہ پربھروسہ کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ کس طرح ان کی مدد کرتے ہیں۔ ایک صاحب پر جھوٹا کیس بنادیا گیا۔ اصل
مجرم اثر ورسوخ والے تھے، پولیس تک انہیں سلام کرتی تھی ۔ اس معصوم اور مجبور محض
کے پاس نہ کوئی سفارش اور نہ کوئی مددگار، لہٰذا اس نے اپنا کیس اللہ کی عدالت میں
پیش کردیا اور گڑ گڑا کردعائیں کرنے لگا۔ اسے قرآن کی چند طویل سورتیں حفظ تھیں،
ان میں سورۃ الواقعہ بھی۔ ایک روز وہ جب اپنی پریشانیوں میں غلطاں وپیچاں کہ اس کی
زبان پر بےساختہ یہ آیتیں جاری ہو گئیں ۔
لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْہَا لَغْوًا وَّلَا تأثیما الا قیلاً سلماً سلماً
ترجمہ:وہ وہاں نہیں سنیں گے کوئی بے ہودہ کلام اور نہ گناہ کی بات۔ سوائے ایک بول
کے سلام ہو تو پر، سلام ہو تم پر۔
اور جب اس نے آیات کے معنی پرغور کیاتو اس کادل مفہوم کے نور سے بھر گیا اور اسے
سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ پیغام کیاہے؟ اور جلد ہی اصل مجرم پکڑے گئے اور اس کی
بے گناہی ثابت ہو گئی۔