’’ مصروفیت ‘‘ ایک عظیم نعمت
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا کی ہیں،
ان میں ایک نعمت مصروفیت بھی ہے۔ اس کے نعمت ہونے کا پتہ اس وقت لگتا ہے جب کوئی
مصروفیت نہ ہو۔ فارغ رہنے، یعنی مصروف نہ ہونے کی اذیت وہی شخص جانتا ہے جسے اس سے
واسطہ پڑا ہو۔ ایک استاد اپنے شاگرد کے بارے میں لکھتا ہے کہ میری ریٹائرمنٹ سے قبل
کامیرا ایک شاگرد ایک دفعہ سربازار مجھ سے ملا۔ اس نے مجھے بتایا کہ بدقسمتی نے اس
کے گھر میں ڈیرہ ڈال لیا ہے۔ پہلی بار اس کی پانچ سالہ بچی چل بسی۔ دوسری بار اسے
اللہ تعالیٰ نے پھرایک بچی عطا کی۔ چھ روز بعد وہ بھی فوت ہو گئی۔
اس دہرے صدمے نے اس کی نیند اڑا دی۔ ساری رات کروٹیں بدلتے ہوئے گزرتی تھی۔ پھر
بھوک بھی ختم ہو گئی او ر اس کاسارا اعتماد بھک سے اڑ گیا۔ اسے ڈاکٹروں کے پاس جانا
پڑا۔ ایک نے نیند کی گولیوں کا مشورہ دیا۔ اس نے دونوں طریقے آزمائے مگر کوئی
افاقہ نہ ہو ا۔ اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کاسارا جسم کسی شکنجے میں جکڑا
ہواہے اور اس کی گرفت روز بروز مضبوط تر ہو رہی ہے۔اسے یہ غم کھائے جارہا تھا کہ
پتہ نہیں یہ بیماری آگے چل کرکتنی شدت اختیارکرے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے
اس کاایک چار سالہ بیٹا ابھی حیات تھا۔ اس نے اس مسئلے کاحل پیش کردیا۔ اس نے کہا:
’’ ابا جان! کیا آپ مجھے ایک کشتی بنادیں گے۔‘‘ اس کاکشتی بنانے بلکہ کچھ بھی کرنے
کو جی نہیں چاہ رہا تھا لیکن بیٹے کے اصرار پر اسے یہ کام کرنا ہی پڑا۔
کشتی بنانے میں اسے کوئی تین گھنٹے لگے۔ جب یہ کام ختم ہوا تو اسے احساس ہوا کہ جو
تین گھنٹے اس نے کشتی بنانے میں صرف کیے ہیں وہ اس کے ذہنی سکون کے لیے بہت مفید
رہے ہیں اور کئی ماہ بعد اس کے ذہن کو یکسوئی نصیب ہوئی ہے۔ اس دوران میں اسے
تھکاوٹ اور بیزاری سے ہٹ کرسوچنے کا موقع ملا رہاہے۔ اسے احساس ہوا کہ جب انسان کچھ
سوچنے لگے اورمنصوبہ بنانے میں مصروف رہے تو پریشانی اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتی،
چنانچہ اس نے مصروف رہنے کی ایک ترکیب ڈھونڈلی۔ اس رات اس نے گھرکا ہر کمرہ کھولا
اور کرنے والے پروگراموں کی ایک فہرست بناڈالی۔ کئی چیزیں مرمت طلب چلی آرہی تھیں
جو کئی مہینوں سے خراب تھیں، چنانچہ اس نے دوہفتے کے دوران میں 242 توجہ طلب چیزوں
کی فہرست ترتیب دے دی۔
پچھلے دو سال کے دوران میں اس نے بیشتر فہرست مکمل کرلی اور اپنی زندگی میں عملی
کام شامل کیے۔ ہفتے میں دو دفعہ وہ تعلیم بالغاں کی کلاسوں میں شامل ہوتا اوروہ اس
سکول بورڈ کا سربراہ ہے۔ اس حیثیت سے اسے مختلف اجلاسوں میں شریک ہونا پڑتا ہے۔
جبکہ وہ شہر کی سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتاہے اور امدادی کاموں کے لیے رقم بھی
اکٹھی کرتا ہے اور اب وہ اتنا مصروف رہتا ہے کہ پریشانی اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔
’’پریشانی کے لیے وقت نہیں ہے۔‘‘ یہ جملہ جنگ عظیم کے دوران میں برطانوی وزیراعظم
ونسنٹن چرچل نے اس وقت کہا جب وہ جنگ کے عروج کے زمانے میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے
مصروف رہتا تھا۔ جب اس سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی بھاری ذمہ داریوں کے لیے پریشان
رہتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ ’’میں اتنا مصروف ہوں کہ پریشان ہونے کے لیے وقت ہی
نہیں ملتا۔‘‘
فرانس کے ماہر کیمیا پاسچر کاکہنا تھا کہ ’’سکون تو صرف لائبریوں اور لیبارٹریوں
میں ہی پایاجاتا ہے۔ ‘‘
اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ لوگ کام میں اس قدرمصروف ہوتے ہیں کہ پریشان ہونے کے لیے ان
کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ تحقیقی کام کرنے والوں پراعصابی دبائو پڑنے کی نوبت کم ہی
آتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عسکری ماہرین نفسیات نے لڑائی اور قید کے ہولناک
تجربات کے پیش نظر فوجیوں کو ہر دم مصروف رکھنا تجویز کیا تاکہ وہ اعصابی مریض نہ
بن جائیں، چنانچہ ان کاہر جاگتا لمحہ عموماً آئوٹ ڈور مصروفیات، مچھلی کے شکار، فٹ
بال، ہاکی، باغبانی اور تیراکی کی مشقوں وغیرہ میں صرف کرایا گیا۔ انہیں بیزاری اور
ہولناک تجربات یاد کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں دیا گیا۔ جب وہ سونے کے لیے بستر
پرجاتے تو اتنے تھک چکے ہوتے کہ آنکھیں بند کرتے ہی نیند کی آغوش میں چلے جاتے
تھے۔ (آب حیات ازمحمد یحییٰ خان)